MY HOME PAKISTAN
Home

دادو کی خوبصورتی، سرد ہواؤں کا مسکن گورکھ ہل اسٹیشن

By

Jul 31, 2024

جب پاکستان کی خوبصورتی کا ذکر ہوتا ہے تو عموماً پنجاب یا خیبر پختونخواہ ذہن میں آتے ہیں، لیکن وطن عزیز کے طول و عرض میں درجنوں تاریخی اور خوبصورت قدرتی مقامات موجود ہیں. ایسا ہی ایک مقام گورکھ ہل اسٹیشن ہے، جسے سندھ کا مری یا نتھیا گلی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ کراچی سے 450 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ ہل اسٹیشن سندھ کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ یہاں گرمیوں میں بھی سرد ہوائیں چلتی ہیں جن کی رفتار 4 سے 14 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ درجہ حرارت 20 سے 25 کے درمیان رہتا ہے اور جنوری اور فروری میں عموماً برف باری بھی ہوتی ہے۔

اگرچہ کراچی سے دس بارہ گھنٹے کا سفر تھکا دینے والا ہوتا ہے، لیکن چاروں طرف ٹھنڈی ہوا کے ہلکورے، آلودگی سے پاک ہوا اور خوبصورت قدرتی مناظر مسافر کی ایک ایک پور سے تھکن نکال دیتے ہیں۔ اس علاقے میں دن کی خوبصورتی اپنی جگہ دل کو چھوتی ہے تو رات کا پرشکوہ نظارہ نگاہوں کو مزید مبہوت کر دیتا ہے۔ ستاروں کی چادر سے ڈھکا آسمان دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے نیلے رنگ کی ردا میں بے شمار جگنو جڑ دیئے ہوں۔ بے نظیر ویو پوائنٹ ہل اسٹیشن کا سب سے اونچا مقام ہے جہاں سے طلوع و غروب آفتاب کے مناظر دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ 2400 ایکڑ رقبے پر مشتمل گورکھ ہل اسٹیشن سندھ کے ضلع دادو اور بلوچستان کے ضلع خضدار کی صوبائی سرحد بھی بناتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی 1340 ایکڑ زمین سندھ جبکہ 1060 ایکڑ بلوچستان میں ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے پہلے کراچی سے بذریعہ بس دادو جانا پڑتا ہے جبکہ باقی سفر جیپ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ضلع دادو سے گورکھ ہل تک کا سفر تقریباً ڈھائی گھنٹے پر محیط ہے۔ سڑک انتہائی پرخطر اور تنگ ہے جس پر ایک وقت میں ایک گاڑی ہی گزر سکتی ہے۔ ایک طرف اونچے پہاڑ تو دوسری جانب گہری کھائی ہے۔ ہر موڑ پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی گاڑی کھائی میں چلی جائے گی۔ یہ راستہ سندھ حکومت کی شدید عدم توجہی کا شکار ہے۔ اسی راستے میں دادو کی مشہور وادی ”واہی پانڈی” بھی آتی ہے جس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ گورکھ ہل کے کھانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دوسری جانب اس سے متصل اینگڑ چشمہ اور گج ندی یہاں کی کشش میں اضافہ کر دیتے ہیں۔

لفظ “گورکھ” کے حوالے سے بہت سی کہانیاں اور روایات مشہور ہیں۔ بعض مقامی افراد کے مطابق اس کا نام ایک ہندو جوگی سری گورکھ ناتھ جی سے منسوب ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق گورکھ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گائے، بکریاں یا بھیڑیں چرانا ہیں۔ مقامی افراد اپنے مویشی یہاں چرانے کے لیے لاتے تھے اس وجہ سے اس کا نام گورکھ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح ایک کہانی کے مطابق اس مقام کا نام پہلے گرکھ تھا پھر گورکھ ہوا۔ گرکھ کے معنی بھیڑیے کے ہیں جو ماضی میں یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ سندھی زبان میں لفظ “گورکھ” کے معنی مشکل اور دشوار گزار راستوں کے ہیں اور زیادہ تر لوگ اسی مفہوم سے متفق ہیں۔ اگر حکومت سندھ توجہ دے تو یہ ایک مقبول تفریحی مقام بن سکتا ہے اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آ سکتی ہے۔

Privious Article

Compare